طبیبو چارہ گرو تم سے جو ہوا سو ہوا
ہمارے دم پہ بھروسا رکھو ہوا سو ہوا
وہ اپنے حال میں خوش ہے ہم اپنے حال پہ خوش
اب اس کا ذکر نہ یارو کرو ہوا سو ہوا
بہت ہوا تو وہی ہوگا جس کا ڈر ہے ہمیں
جو ہو رہا ہے وہ ہونے دو جو ہوا سو ہوا
عبث ہے کثرت کار جنوں بھی ایسے میں
عزیزو چاک گریباں سیو ہوا سو ہوا
کوئی بھی صورت احوال کو نہ جانے گا
جو دل کی بات ہے دل میں رکھو ہوا سو ہوا
صبا کے بس میں نہیں اب پیام صبح وصال
دیار ہجر کے زندانیو ہوا سو ہوا
کہیں ہیں ریختہ پنجاب میں نظرؔ صاحب
بقدر ذوق تم ان کی سنو ہوا سو ہوا
غزل
طبیبو چارہ گرو تم سے جو ہوا سو ہوا
پریم کمار نظر