تباہی کا اپنی نشاں چھوڑ آئے
ورق در ورق داستاں چھوڑ آئے
ہر اک اجنبی سے پتہ پوچھتے ہیں
تجھے زندگی ہم کہاں چھوڑ آئے
وہی لوگ جینے کا فن جانتے ہیں
جو احساس سود و زیاں چھوڑ آئے
نکل آئے تنہا تری رہگزر پر
بھٹکنے کو ہم کارواں چھوڑ آئے
غزل
تباہی کا اپنی نشاں چھوڑ آئے
کیف عظیم آبادی