EN हिंदी
تباہی کا اپنی نشاں چھوڑ آئے | شیح شیری
tabahi ka apni nishan chhoD aae

غزل

تباہی کا اپنی نشاں چھوڑ آئے

کیف عظیم آبادی

;

تباہی کا اپنی نشاں چھوڑ آئے
ورق در ورق داستاں چھوڑ آئے

ہر اک اجنبی سے پتہ پوچھتے ہیں
تجھے زندگی ہم کہاں چھوڑ آئے

وہی لوگ جینے کا فن جانتے ہیں
جو احساس سود و زیاں چھوڑ آئے

نکل آئے تنہا تری رہگزر پر
بھٹکنے کو ہم کارواں چھوڑ آئے