EN हिंदी
تباہی بستیوں کی ہے نگہبانوں سے وابستہ | شیح شیری
tabahi bastiyon ki hai nigahbanon se wabasta

غزل

تباہی بستیوں کی ہے نگہبانوں سے وابستہ

راہی قریشی

;

تباہی بستیوں کی ہے نگہبانوں سے وابستہ
گھروں کا رنج ویرانی ہے مہمانوں سے وابستہ

سفر قدموں سے وابستہ ہے لیکن راستہ اپنا
گلستانوں سے وابستہ نہ ویرانوں سے وابستہ

صداقت بھی تو ہو جاتی ہے مقتول فریب آخر
حقیقت بھی تو ہو جاتی ہے افسانوں سے وابستہ

سپرد خاک ہم نے ہی کیا کتنے عزیزوں کو
ہمیں نے کر دیے ہیں پھول ویرانوں سے وابستہ

تہی دستی نے تنہا کر دیا ہر ایک محفل میں
بجھی شمعیں نہیں رہتی ہیں پروانوں سے وابستہ

چراغوں کو رکھا جاتا ہے آندھی اور طوفاں میں
فرشتوں کو کیا جاتا ہے شیطانوں سے وابستہ

صحیفوں میں کہیں تحریر روشن تھی یہی راہیؔ
زمیں پر تھے کبھی انسان انسانوں سے وابستہ