تازہ ہے اس کی مہک رات کی رانی کی طرح
کسی بچھڑے ہوئے لمحے کی نشانی کی طرح
جتنا دیکھو اسے تھکتی نہیں آنکھیں ورنہ
ختم ہو جاتا ہے ہر حسن کہانی کی طرح
ریگ صحرا کا عجب رنگ ہواؤں نے کیا
نقش سا کھنچ گیا دریا کی روانی کی طرح
یوں گزرتا ہے وہ کترا کے نواح دل سے
جیسے یہ خاک کا خطہ بھی ہو پانی کی طرح
مجھ سے کیا کچھ نہ صبا کہہ کے گئی ہے اے زیبؔ
چند ہی لفظوں میں پیغام زبانی کی طرح

غزل
تازہ ہے اس کی مہک رات کی رانی کی طرح
زیب غوری