تعصب کی فضا میں طعنۂ کردار کیا دیتا
منافق دوستوں کے ہاتھ میں تلوار کیا دیتا
امیر شہر تو خود زرد رو تھا ایک مدت سے
جھروکے سے وہ اہل شہر کو دیدار کیا دیتا
ہمارے دن کو جو دیتا نہیں اک دھوپ کا ٹکڑا
ہماری رات کو وہ چاند کا معیار کیا دیتا
کہیں گولی کہیں گالی محبت سے ہے دل خالی
خبر یہ تھی تو بچوں کو نیا اخبار کیا دیتا
بہت دشوار ہے خوددار رہ کر زندگی کرنا
خوشامد کرنے والا صدقۂ دستار کیا دیتا
خود اس کا سایہ بھی اس سے گریزاں ہے مصیبت میں
مرا ہم سایہ مجھ کو سایۂ دیوار کیا دیتا
سرائے جاں میں دانستہ مسافر لٹ گیا ورنہ
کہ دل سا سخت جاں اک گل بدن کو وار کیا دیتا
غزل
تعصب کی فضا میں طعنۂ کردار کیا دیتا
عنوان چشتی