تاریکیوں میں اپنی ضیا چھوڑ جاؤں گا
گزروں گا میں تو نقش وفا چھوڑ جاؤں گا
دنیا کے لوگ سنتے رہیں گے تمام عمر
لفظوں میں اپنے دل کی صدا چھوڑ جاؤں گا
اپنے لہو سے پھول کھلا کر حیات کے
ہر سمت خوشبوؤں کی فضا چھوڑ جاؤں گا
رکھیں گی یاد حسن کی رعنائیاں مجھے
وہ گلستاں میں رنگ نیا چھوڑ جاؤں گا
ہر اک قدم بنے گی جو تہذیب کی مثال
وہ زندگی کی طرز ادا چھوڑ جاؤں گا
سینچے گا پھر چمن میں اسے میرے بعد کون
جس پیڑ کو یہاں میں ہرا چھوڑ جاؤں گا
یہ سوچتا ہوں جب کبھی ہوگا مرا سفر
کیا کیا میں لے کے جاؤں گا کیا چھوڑ جاؤں گا
ترکے میں کچھ بھی چھوڑوں نہ چھوڑوں یہاں مگر
بچوں کے حق میں اپنی دعا چھوڑ جاؤں گا
پہنچے گا فیض جس سے زمانے کو اے گہرؔ
علم و ہنر کی میں وہ گھٹا چھوڑ جاؤں گا

غزل
تاریکیوں میں اپنی ضیا چھوڑ جاؤں گا
گہر خیرآبادی