تاریکی میں دیپ جلائے انساں کتنا پیارا ہے
راہیں ڈھونڈے منزل پائے انساں کتنا پیارا ہے
وقت مصیبت آنسو پونچھے ہمدردی کی بات کرے
ٹوٹے دل کو آس دلائے انساں کتنا پیارا ہے
مانگے سو سو طرح معافی چھوٹی سی اک بھول کی بھی
اپنی خطاؤں پر شرمائے انساں کتنا پیارا ہے
دل کی دھڑکن دل میں سموئے گیت کی لے ایجاد کرے
محفل محفل ساز بجائے انساں کتنا پیارا ہے
لیلیٰ خود آگاہ کی دھن میں دامن پھاڑے قیس بنے
صحرا صحرا خاک اڑائے انساں کتنا پیارا ہے
لے کے حریم ناز اس کے شیریں شیریں نغموں کو
دوراںؔ کی توقیر بڑھائے انساں کتنا پیارا ہے
غزل
تاریکی میں دیپ جلائے انساں کتنا پیارا ہے
اویس احمد دوراں