طاق جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دیے
اس کے بعد جو غم آئے پھر ہنس کے ٹال دیے
کب تک آڑ بنائے رکھتی اپنے ہاتھوں کو
کب تک جلتے تیز ہواؤں میں بے حال دیے
وہی مقابل بھی تھا میرا سنگ راہ بھی تھا
جس پتھر کو میں نے اپنے خد و خال دیے
زرد رتوں کی گرد نے حال چھپایا تھا گھر کا
اک بارش نے دیواروں کے زخم اجال دیے
دھات کھری تھی جذبوں کی لیکن اجرت سے قبل
قسمت کی ٹکسال نے سکے کھوٹے ڈھال دیے
تازہ رت کے استقبال کی خاطر شاخوں نے
پیڑ کے سارے موسم دیدہ پات اچھال دیے
جن کو پڑھ کر پہلے ہنستی تھی پھر روتی تھی
آخر اک دن میں نے وہ خط آگ میں ڈال دیے
جن میں تھے مذکور حوالے تیری چاہت کے
نورؔ کتاب زیست سے وہ اوراق نکال دیے

غزل
طاق جاں میں تیرے ہجر کے روگ سنبھال دیے
شہناز نور