تعلق توڑ کر اس کی گلی سے
کبھی میں جڑ نہ پایہ زندگی سے
خدا کا آدمی کو ڈر کہاں اب
وہ گھبراتا ہے کیول آدمی سے
مری یہ تشنگی شاید بجھے گی
کسی میری ہی جیسی تشنگی سے
بہت چبھتا ہے یہ میری انا کو
تمہارا بات کرنا ہر کسی سے
خسارے کو خسارے سے بھروں گا
نکالوں گا اجالا تیرگی سے
تمہیں اے دوستو میں جانتا ہوں
سکوں ملتا ہے میری بیکلی سے
ہواؤں میں کہاں یہ دم تھا فیصلؔ
دیا میرا بجھا ہے بزدلی سے
غزل
تعلق توڑ کر اس کی گلی سے
سراج فیصل خان