تعلق کی نئی اک رسم اب ایجاد کرنا ہے
نہ اس کو بھولنا ہے اور نہ اس کو یاد کرنا ہے
زبانیں کٹ گئیں تو کیا سلامت انگلیاں تو ہیں
در و دیوار پہ لکھ دو تمہیں فریاد کرنا ہے
ستارہ خوش گمانی کا سجایا ہے ہتھیلی پر
کسی صورت ہمیں تو اپنے دل کو شاد کرنا ہے
بنا کر ایک گھر دل کی زمیں پر اس کی یادوں کا
کبھی آباد کرنا ہے کبھی برباد کرنا ہے
تقاضا وقت کا یہ ہے نہ پیچھے مڑ کے دیکھیں ہم
سو ہم کو وقت کے اس فیصلے پر صاد کرنا ہے
غزل
تعلق کی نئی اک رسم اب ایجاد کرنا ہے
حمیرا راحتؔ