تاخیر آ پڑی جو بدن کے ظہور میں
ہم نے خلائیں گھول دیں بین السطور میں
مٹی کو اپنی رات میں تحلیل کر دیا
اک سر زمیں سمیٹ لی تاروں کے نور میں
ممکن ہے ترک ہی کرے وہ حشر کا خیال
دل کا سکوت پھونک کے آیا ہوں صور میں
اک نقطۂ غیاب میں ڈھلنے لگے فلک
بھٹکا ہوں اتنی دور بھی تحت الشعور میں
تجرید جاں کی اک نئی منطق ہوں میں ریاضؔ
پوشیدہ ہو رہا ہوں خود اپنے حضور میں

غزل
تاخیر آ پڑی جو بدن کے ظہور میں
ریاض لطیف