تابندہ بہاروں کے نظارے نہیں دیکھے
تو نے وہ چمکتے ہوئے تارے نہیں دیکھے
کچھ اس لیے بھی نیند ہمیں آتی ہے جلدی
آنکھوں نے ابھی خواب تمہارے نہیں دیکھے
خود ہاتھ ملایا ہے سمندر میں بھنور سے
کشتی نے تلاطم میں سہارے نہیں دیکھے
ممکن ہے کسی طور کوئی چارہ بھی ہوتا
تو نے ہی کبھی زخم ہمارے نہیں دیکھے
کیا کیا نہ ستم مجھ پہ کیا رات نے آ کر
دن کیسے مری جان گزارے نہیں دیکھے
کیا دیکھ رہے ہو یہ محبت کے کرم ہیں
تم نے کبھی تقدیر کے مارے نہیں دیکھے
غزل
تابندہ بہاروں کے نظارے نہیں دیکھے
مریم ناز