EN हिंदी
تعاقب میرا خوشبو کر رہی تھی | شیح شیری
taaqub mera KHushbu kar rahi thi

غزل

تعاقب میرا خوشبو کر رہی تھی

سلمیٰ شاہین

;

تعاقب میرا خوشبو کر رہی تھی
مرے زخموں پہ مرہم دھر رہی تھی

میں چھیڑوں پھر وہی ساز محبت
اشارے وہ مسلسل کر رہی تھی

ہوا دن فکر دنیا نے دبوچا
تمہاری یاد تو شب بھر رہی تھی

وہ دن بھی تھے کہ تو نے اشک پونچھے
تری ممنون چشم تر رہی تھی

ہمارا نام کیا صورت نہیں یاد
ملاقات ان سے تو اکثر رہی تھی

سحر تک رات کی رانی کی خوشبو
مری انگنائی میں دن بھر رہی تھی