سورج سرخ دشا میں اترا
دن ڈوبا دریا میں اترا
ہوٹل سبزہ لان لب جو
گھرتا ابر گھٹا میں اترا
اٹ کر گرد معاش سے ابھرے
پھٹ کر درد دعا میں اترا
شہر پناہ کی گلیاں جاگیں
چاند جو محل سرا میں اترا
سوئے اوڑھ کے مقتل کو ہم
دشت بلا صحرا میں اترا
بام پہ شام ہوئی گوری کو
انگ کا رنگ ادا میں اترا
شاخ جھکی چہرے کے آگے
ٹوٹ کے پھول قبا میں اترا
مرے کبھی بے نام ہی ہم تم
قصہ کبھی کتھا میں اترا
دھوپ ہی دھوپ تھی اس کے مکھ پر
روپ ہی روپ ہوا میں اترا
غزل
سورج سرخ دشا میں اترا
ناصر شہزاد