سورج کو نکلنا ہے سو نکلے گا دوبارا
اب دیکھیے کب ڈوبتا ہے صبح کا تارا
مغرب میں جو ڈوبے اسے مشرق ہی نکالے
میں خوب سمجھتا ہوں مشیت کا اشارا
پڑھتا ہوں جب اس کو تو ثنا کرتا ہوں رب کی
انسان کا چہرہ ہے کہ قرآن کا پارہ
جی ہار کے تم پار نہ کر پاؤ ندی بھی
ویسے تو سمندر کا بھی ہوتا ہے کنارا
جنت ملی جھوٹوں کو اگر جھوٹ کے بدلے
سچوں کو سزا میں ہے جہنم بھی گوارا
یہ کون سا انصاف ہے اے عرش نشینو
بجلی جو تمہاری ہے تو خرمن ہے ہمارا
مستقبل انسان نے اعلان کیا ہے
آئندہ سے بے تاج رہے گا سر دارا
غزل
سورج کو نکلنا ہے سو نکلے گا دوبارا
احمد ندیم قاسمی