سورج کی تپتی دھوپ نے مارا ہے ان دنوں
پیڑوں کی چھاؤں کا ہی سہارا ہے ان دنوں
ہم کو بھی دل کے درد نے مارا ہے ان دنوں
درد جگر غزل میں اتارا ہے ان دنوں
احساس برف برف ہیں دل کی زمین پر
یادوں کی دھوپ کا ہی سہارا ہے ان دنوں
سوکھے بدن کی خاک پہ غم کی پھوار تھی
یہ ہی سبب ہے جسم میں گارا ہے ان دنوں
یہ اشک اب تو پیاس بجھانے لگے مری
یہ آبشار اپنا سہارا ہے ان دنوں
غم کے تھپیڑے بیچ سمندر میں لے گئے
خوشیوں کا مجھ سے دور کنارہ ہے ان دنوں
سیماؔ کی دھڑکنیں بھی تمہاری کنیز ہیں
دل پر ہمارے راج تمہارا ہے ان دنوں
غزل
سورج کی تپتی دھوپ نے مارا ہے ان دنوں
سیما شرما میرٹھی