سورج کے ساتھ ساتھ ابھارے گئے ہیں ہم
تاریکیوں میں پھر بھی اتارے گئے ہیں ہم
راس آ سکی نہ ہم کو ہوا تیرے شہر کی
یوں تو قدم قدم پہ سنوارے گئے ہیں ہم
کچھ قہقہوں کے ابر رواں نے دیا نکھار
کچھ غم کی دھوپ سے بھی نکھارے گئے ہیں ہم
ساحل سے رابطہ ہیں نہیں ٹوٹتا کبھی
کیسے سمندروں میں اتارے گئے ہیں ہم
ٹوٹا نہ راہ شوق میں افسون تیرگی
لے کر جلو میں چاند ستارے گئے ہیں ہم
جانا محال تھا تری محفل کو چھوڑ کر
پا کر تری نظر کے اشارے گئے ہیں ہم
اس تیرہ خاکداں میں کوئی پوچھتا نہیں
کہنے کو آسماں سے اتارے گئے ہیں ہم
سو بار بار غم نے پریشاں کیا ہمیں
سو بار مثل زلف سنوارے گئے ہیں ہم
اس سلسلے میں موت تو بدنام ہے یونہی
اس زندگی کے ہاتھوں ہی مارے گئے ہیں ہم
گرداب غم میں ڈوب کے ابھرے ہیں بارہا
کس نے کہا کنارے کنارے گئے ہیں ہم
یزدانؔئ حزیں ہمیں کچھ بھی خبر نہیں
اس آستاں پہ کس کے سہارے گئے ہیں ہم

غزل
سورج کے ساتھ ساتھ ابھارے گئے ہیں ہم
یزدانی جالندھری