سورج کے ہم سفر ہیں ہماری امنگ یہ
اور سامنے ہمارے ہے کالی سرنگ یہ
میری طرح یہ دل کے لہو میں نہائے ہیں
بے وجہ تو نہیں ہے گلابوں کا رنگ یہ
اس معرکے میں کام جو ہم آ گئے تو کیا
جاری رہے گی بعد ہمارے بھی جنگ یہ
اک لمس مل گیا تھا مجھے تیرے دھیان کا
اب عمر بھر اترنے نہیں دوں گا رنگ یہ
شرمندہ ہوں نہ دوست مضر اس لیے ہوں میں
آتے ہیں دشمنوں کی طرف ہی سے سنگ یہ
آئی ہوئی گرفت میں ہے گرد باد کی
اب جنگلوں میں جا کے گرے گی پتنگ یہ
رعنائیاں عجیب سی ہیں یاد یار میں
خوشبو یہ خوشبوؤں میں ہے رنگوں میں رنگ یہ
غزل
سورج کے ہم سفر ہیں ہماری امنگ یہ
نسیم سحر