سونا لگا بغیر ترے مجھ کو سارا گھر
بیلیں چڑھیں گلاب کی جب باتھ روم پر
اوپر وہ گاؤں نیچے لڑھکتی ڈھلان پر
مسجد کو سجدہ ریز خمیدہ سی اک ڈگر
کن الجھنوں میں بچے کو پڑھوائی نرسری
کن کوششوں سے طے ہوا اک سال اک سفر
آٹا بھی گھی بھی گھر بھی یہاں قیمتاً ملیں
کیوں آ گیا میں شہر میں گاؤں کو چھوڑ کر
لو دے وہ کلپنا کہیں جگ درپنا کے دوار
برسوں رکیں ادھر کہیں سرسوں جھکیں ادھر
تیرا ملن ضرور بھی دستور بھی سہی
پڑتی ہیں راستے میں چنابیں بہت مگر
تزئین بھی زمین بھی سب کچھ اسی میں ہے
مکھ بولتا قمر کسالک، ڈولتی لگر
چڑیوں کا شور چولہوں سے اٹھتے دھوئیں کی کور
صبحوں کے سب سہاگ، ہوا، پر، صدا، گجر
ہم بندھنوں کے بیر پیا پران میں سریر
میری وہی ڈگر سکھی میرا وہی نگر
چھلکے سرور گات سے آنند ہاتھ سے
دے ری سکھی خبر گیا گاگر کو کون بھر
دونوں تپسیا تیاگ ہیں دونوں برہ بہاگ
شبھ شیام دل کے در کہیں ہردے کے بیچ ہرؔ
غزل
سونا لگا بغیر ترے مجھ کو سارا گھر
ناصر شہزاد