سود و زیاں کے باب میں ہارے گھڑی گھڑی
سانسوں کے قرض ہم نے اتارے گھڑی گھڑی
چلتی رہی ہوائے مخالف تمام رات
گرتے رہے فلک سے ستارے گھڑی گھڑی
تھمتی ہے روز گردش ساغر مگر خمار
چلتا ہے ساتھ ساتھ ہمارے گھڑی گھڑی
اب ہجر نہ وصال نہ سودا ترے بغیر
دکھتا ہے دل بھی درد کے مارے گھڑی گھڑی
اے رخش ناز مڑ کے ذرا دیکھ تو سہی
یادوں کے در سے کون پکارے گھڑی گھڑی
سلمانؔ پھر چلا ہے اسی بزم ناز میں
کم ظرف اپنے بال سنوارے گھڑی گھڑی

غزل
سود و زیاں کے باب میں ہارے گھڑی گھڑی
سلمان انصاری