سوئے صحرا ہی مجھے لے گئی وحشت میری
تیرے در پر نہ ہوئی آہ سکونت میری
ہے مسیحائی کا دعویٰ تو جلا لے آ کر
دم لبوں پر ہے ذرا دیکھ تو صورت میری
میں نے بازار جہاں میں لیا سودا تیرا
حسن یوسف پہ فدا کیا ہو طبیعت میری
باغ عالم میں غم عشق کا پھل راحت ہے
موجب عز و کرامت ہوئی ذلت میری
ہوں میں آوارہ و گم گشتہ رہ مقصد کا
حضرت خضر سے کیا ہوگی ہدایت میری
میں مقیم در جاناں ہوں وہ تنہا دشت نورد
جوش الفت میں ہے کیا قیس سے نسبت میری
اڑ کے پہنچا سر گردوں پہ بگولا بن کر
بعد مٹنے کے بلند اتنی ہے ہمت میری
پاس میرے جو نہ آئے کوئی شکوہ کیا ہے
کرتی ہے بے کسیٔ عشق رفاقت میری
نعرہ زن رعد کے مانند غم ہجر سے ہوں
صفت برقؔ تڑپنے کی ہے عادت میری
غزل
سوئے صحرا ہی مجھے لے گئی وحشت میری
شیام سندر لال برق