سوئے منزل نہ جو رواں ہوں گے
صورت گرد کارواں ہوں گے
لب اگر خوگر فغاں ہوں گے
داغ دل اور بھی عیاں ہوں گے
دو گھڑی ہنس کے بات کر ہم سے
پھر خدا جانے ہم کہاں ہوں گے
گلستاں میں بہار آنے دے
ڈالی ڈالی پہ آشیاں ہوں گے
آہ وہ فاصلے جو قرب پہ بھی
میرے اور ان کے درمیاں ہوں گے
حسن جب تک نہ جلوہ گر ہوگا
دونوں عالم دھواں دھواں ہوں گے
چھڑ گیا پھر ترے شباب کا ذکر
دل کے ارمان پھر جواں ہوں گے
آپ کہتے ہیں ہیں تو یقیں ہے مجھے
آپ بھی میرے قدرداں ہوں گے
ہم نہ ہوں گے مگر ہمارے بعد
اشک اس آنکھ سے رواں ہوں گے
وجہ بربادئ دل رفعتؔ
آپ جیسے ہی قدرداں ہوں گے

غزل
سوئے منزل نہ جو رواں ہوں گے
رفعت سلطان