سرور سے اٹے ہوئے اے موسم وصال رک
ملے دریدہ قلب کو سکون اندمال رک
اے حیرت گلاب رخ تو اتنا لا جواب ہے
کہ کہہ اٹھے سوال سے ہمارے لب سوال رک
تجھے گلہ ہے اب وہ لذتیں رہیں نہ قربتیں
میں ڈالتا ہوں رقص عشق میں ابھی دھمال رک
نہ راس آئے گا کوئی نہ دل کو بھائے گا کوئی
ہمارے بن ڈسے گا تجھ کو عمر بھر ملال رک
پڑے گا رن اذیتوں کا سمت شہر ہجر روز
ادھر نہ جا ٹھہر ذرا تو دیکھ میرا حال رک
میں تیرے حسب ادعا نہیں ہوں وہ جو تھا کبھی
وہ تھا بھی لوٹ آئے گا اے میرے ہم خیال رک
غزل طرازیاں مری نگاہ ناز سے تری
یہ کر رہی ہیں التجا نہ جا مرے غزال رک
حواس کھو چکے ہیں سب ہوا ندیمؔ جاں بلب
تو اب نہ میرے سامنے آ حاصل جمال رک
غزل
سرور سے اٹے ہوئے اے موسم وصال رک
ندیم سرسوی