سرمئی دھوپ میں دن سا نہیں ہونے پاتا
دھند وہ ہے کہ اجالا نہیں ہونے پاتا
دینے لگتا ہے کوئی ذہن کے در پر دستک
نیند میں بھی تو میں تنہا نہیں ہونے پاتا
گھیر لیتی ہیں مجھے پھر سے اندھیری راتیں
میری دنیا میں سویرا نہیں ہونے پاتا
چھین لیتے ہیں اسے بھی تو عیادت والے
دکھ کا اک پل بھی تو میرا نہیں ہونے پاتا
سخت جانی مری کیا چیز ہے حیرت حیرت
چوٹ کھاتا ہوں شکستہ نہیں ہونے پاتا
لاکھ چاہا ہے مگر یہ دل وحشی دنیا
تیرے ہاتھوں کا کھلونا نہیں ہونے پاتا
غزل
سرمئی دھوپ میں دن سا نہیں ہونے پاتا
نشتر خانقاہی