سرخی بدن میں رنگ وفا کی تھی کچھ دنوں
تاثیر یہ بھی اس کی دعا کی تھی کچھ دنوں
ڈھونڈے سے اس کے نقش الجھتے تھے اور بھی
حالت تمام کرب و بلا کی تھی کچھ دنوں
کاغذ پہ تھا لکھا ہوا ہر حرف لب کشا
تحریر جسم صوت و ادا کی تھی کچھ دنوں
شاخوں پہ کونپلوں کو زبانیں عطا ہوئیں
یہ دلبری بھی دست صبا کی تھی کچھ دنوں
دل سوزئ وفا کو شکیبائی کی عطا
شائستگی یہ رنگ حنا کی تھی کچھ دنوں
اب ہے کدورتوں کا کھلا دشت اور میں
چاہت تمام تیری رضا کی تھی کچھ دنوں
کیفیت نشاط تھی خود ہی سے گفتگو
ناہیدؔ یہ ردا بھی حیا کی تھی کچھ دنوں
غزل
سرخی بدن میں رنگ وفا کی تھی کچھ دنوں
کشور ناہید

