سرخئ شام نے یوں پھول بکھیرے دل میں
جیسے چپکے سے اتر آئے سویرے دل میں
ہم تو صدیوں سے یوں ہی گوش بر آواز رہے
جانے وہ کون ہے کیا راز ہیں تیرے دل میں
پاس شب بھر کوئی خورشید صفت رہتا ہے
دن تو تارے سے اتر آتے ہیں میرے دل میں
پیار کی لو سے منور ہے شبستان وصال
آج تو آن ملے شام سویرے دل میں
ہم مسافر ہیں محبت کی کٹھن راہوں کے
تھک بھی جاتے ہیں تو کرتے ہیں بسیرے دل میں
کیوں بھٹکتا ہے ادھر آ کے ذرا سستا لے
اس طرف دھوپ ہے بادل ہے گھنیرے دل میں
اپنا سرمایۂ فن پھر بھی سلامت ہی رہا
کتنی ہی بار جمیلؔ آئے لٹیرے دل میں
غزل
سرخئ شام نے یوں پھول بکھیرے دل میں
جمیل ملک