EN हिंदी
صراحی مضمحل ہے مے کا پیالہ تھک چکا ہے | شیح شیری
surahi muzmahil hai mai ka piyala thak chuka hai

غزل

صراحی مضمحل ہے مے کا پیالہ تھک چکا ہے

فیض خلیل آبادی

;

صراحی مضمحل ہے مے کا پیالہ تھک چکا ہے
در ساقی پہ ہر اک آنے والا تھک چکا ہے

اندھیرو آؤ آ کر تم ہی کچھ آرام دے دو
کہ چلتے چلتے بیچارہ اجالا تھک چکا ہے

عداوت کی دراریں ویسی کی ویسی ہیں اب تک
وہ بھرتے بھرتے الفت کا مسالہ تھک چکا ہے

مجھے لوٹا ضرورت کی یہاں ہر کمپنی نے
مسلسل کرتے کرتے دل کفالت تھک چکا ہے

سخن میں کچھ نئے مجموعہ لے کر آئیے آپ
پرانی شاعری سے ہر رسالہ تھک چکا ہے

بتا اے فیضؔ آخر گاؤں جا کر کیا کرے گا
تو جس کے نام کی جپتا تھا مالا تھک چکا ہے