سپردگی کا ولولہ جمال میں نہیں ملا
مجھے فسون بے خودی وصال میں نہیں ملا
جو آئنے سے کرچیوں کے درمیاں کا تھا سفر
شکست ذات کی کسی مثال میں نہیں ملا
الم نصیب شام میں ہے مہر جاں بجھا بجھا
نشاط رنج بھی مجھے مآل میں نہیں ملا
ہزار یاسمین مشک بو ہوں تیرے قرب میں
چمن کا عکس تیرے خد و خال میں نہیں ملا
وہ سر بریدہ چاند بھی غروب ہو گیا مگر
ستارۂ سحر شب زوال میں نہیں ملا
ندیمؔ ہر قدم پہ درد بے اماں کا در کھلا
سکون اس جہان بے مثال میں نہیں ملا
غزل
سپردگی کا ولولہ جمال میں نہیں ملا
کامران ندیم