EN हिंदी
سپرد غم زدگان صف وفا ہوا میں | شیح شیری
supurd-e-gham-zadagan-e-saf-e-wafa hua main

غزل

سپرد غم زدگان صف وفا ہوا میں

اقبال کوثر

;

سپرد غم زدگان صف وفا ہوا میں
پڑا ہوں عمر کی دیوار سے گرا ہوا میں

عجیب سوچ سی اور اس پہ سوچتا ہوا میں
کہ ٹوٹتا تری حیرت میں آئنا ہوا میں

کہیں میں کوہ پہ فرہاد اور دشت میں قیس
وجود عشق میں ہوں خود کو ڈھونڈھتا ہوا میں

جسے بھی ملنا ہے مجھ سے وہ انتظار کرے
نہ جانے کب پلٹ آؤں کہیں گیا ہوا میں

نہ مل سکا کوئی افسوس وقت پر مجھ کو
کسی کو مل نہ سکا وقت سے کٹا ہوا میں

تمام ہم نفساں قطع کر گئے منزل
بس اک مسافر رہ رہ گیا بچا ہوا میں

تمام عمر یونہی طرز بود و باش رہی
کہیں چراغ بنا میں کہیں ہوا ہوا میں

سمجھ نہ سہل زمانے کی گردشوں کے بعد
ہوا میں خود کو فراہم مجھے عطا ہوا میں

عجیب کیفیت انتشار میں ہوں رواں
غبار سا ہوں کسی خاک سے اڑا ہوا میں