سنو گے تم بھی مری داستاں کبھی نہ کبھی
اثر دکھائے گا درد نہاں کبھی نہ کبھی
کبھی تو آتش نمرود سرد بھی ہوگی
قرار پائے گا قلب تپاں کبھی نہ کبھی
یہ آج گردش شام و سحر بتاتی ہے
نظر بچائے گا خود آسماں کبھی نہ کبھی
کبھی تو گوہر نایاب ہاتھ آئے گا
ملے گا روح خودی کا نشاں کبھی نہ کبھی
جمود سحر تمنا میں رہ نہیں سکتا
فروغ پائے گا عزم جواں کبھی نہ کبھی
اذاں بلال کی گونجی ہے ریگزاروں میں
سنے گا دل کی صدا یہ جہاں کبھی نہ کبھی
عزیزؔ تیری محبت بھی رنگ لائے گی
تمام ہوگا غم بے کراں کبھی نہ کبھی
غزل
سنو گے تم بھی مری داستاں کبھی نہ کبھی
عزیز بدایونی