سنو تو عارضۂ اختلاج رہنے دو
سکوں کے ٹھیک نہیں ہیں مزاج رہنے دو
بحکم شاہ تقاریب امن کل ہوں گے
شرر گزیدہ ہے ماحول آج رہنے دو
تم اپنی نبض کی رفتار پر نظر رکھو
خلاف گردش نو احتجاج رہنے دو
کسی کو سایہ کسی کو گل و ثمر دے گا
ہرا بھرا ہے درخت رواج رہنے دو
زمین فکر و ہنر بانجھ ہے ابھی راہیؔ
حصول داد وصول خراج رہنے دو
غزل
سنو تو عارضۂ اختلاج رہنے دو
راہی فدائی