سنو خاموش ہی ہستی مری تم سے جدا ہوگی
کہ اب ہر اک فریاد عنایت بے نوا ہوگی
کسی فریاد محبت سے بھلا امید کیا رکھنا
محبت بے وفا تھی بے وفا ہے بے وفا ہوگی
پرانے کاغذوں پہ درج میری شاعری شاید
کسی مجروح دل کے زخم کی مائل ردا ہوگی
کرو گے ظلم کب تک مشورہ ہے باز آ جاؤ
بہت پچھتاؤ گے تم ظلم کی گر انتہا ہوگی
تجسس چھوڑ دے تم قیس و لیلیٰ سی محبت کا
کی دور نو کی ہر تمثیل الفت بے وفا ہوگی

غزل
سنو خاموش ہی ہستی مری تم سے جدا ہوگی
فیصل فہمی