EN हिंदी
سنی نہ دشت یا دریا کی بھی کبھی میں نے | شیح شیری
suni na dasht ya dariya ki bhi kabhi maine

غزل

سنی نہ دشت یا دریا کی بھی کبھی میں نے

سیما شرما میرٹھی

;

سنی نہ دشت یا دریا کی بھی کبھی میں نے
کہ بے خودی میں گزاری ہے زندگی میں نے

بتائی موت کے سائے میں زندگی اپنی
بنا ہی زہر کے کر لی ہے خودکشی میں نے

ندی ہو تال سمندر یا دشت ہو کوئی
سبھی کے لب پہ ہی دیکھی ہے تشنگی میں نے

کبھی تو میرا کہا مان زندگی میری
تری خوشی میں ہی پائی ہے ہر خوشی میں نے

کبھی ہے سرد کبھی گرم سے لباسوں میں
ہوا کو دی ہے کئی بار اوڑھنی میں نے

ترے لیے تو زمیں آسمان ایک کیے
کہاں کہاں نہ تلاشا تجھے خوشی میں نے

ادھیڑتا ہی رہا تو یقین کی چادر
تمام عمر رفو کی سلائی کی میں نے

تمہاری یاد کے پودے لگا کے اس دل میں
فضائے دل میں بھی خوشبو سی گھول دی میں نے

گلاب کی کلی سیماؔ نکھری ہے جب
تمہارے عشق کی شبنم کی بوند پی میں نے