سنی ہر بات اپنے رہنما کی
یہی اک بھول ہم نے بارہا کی
ہوئی جو زندگی سے اتفاقاً
وہی بھول اس نے پھر اک مرتبہ کی
مجھی میں گونجتی ہیں سب صدائیں
مگر پھر بھی ہے خاموشی بلا کی
ہر اک کردار میں ڈھلنے کی چاہت
متانت دیکھیے بہروپیا کی
ازل کے پیشتر بھی کچھ تو ہوگا
کہاں پھر حد ملے گی ابتدا کی
تلاطم ہیں مرے میری ہیں لہریں
مجھے کیوں جستجو ہو ناخدا کی
ہمارے ساتھ ہو کر بھی نہیں ہے
شکایت کیا کریں اس گمشدہ کی
ہر اک آہٹ تری آمد کا دھوکہ
کبھی تو لاج رکھ لے اس خطا کی
سراپا ہائے اس نازک بدن کا
کوئی تصویر جیسے اپسرا کی
غزل
سنی ہر بات اپنے رہنما کی
پون کمار