سنہرے خواب آنکھوں میں بنا کرتے تھے ہم دونوں
پرندوں کی طرح دن بھر اڑا کرتے تھے ہم دونوں
الٰہی زندگی یونہی محبت میں گزر جائے
نماز فجر پڑھ کر یہ دعا کرتے تھے ہم دونوں
ہمیشہ ٹھنڈی ہو جاتی تھی چائے باتوں باتوں میں
وہ باتیں جو ان آنکھوں سے کیا کرتے تھے ہم دونوں
گزر جاتا تھا سارا دن اکٹھے سیپیاں چنتے
سمندر کے کنارے پر رہا کرتے تھے ہم دونوں
ہوا کے ایک جھونکے سے لرز جاتے دریچوں میں
چراغوں کی طرح شب بھر جلا کرتے تھے ہم دونوں
محبت میں کٹھن رستے بہت آسان لگتے تھے
پہاڑوں پر سہولت سے چڑھا کرتے تھے ہم دونوں
حسنؔ رسوائی کا خدشہ کبھی دل میں نہیں آیا
خیالوں اور خوابوں میں ملا کرتے تھے ہم دونوں
غزل
سنہرے خواب آنکھوں میں بنا کرتے تھے ہم دونوں
حسن عباسی