EN हिंदी
سنا کے رنج و الم مجھ کو الجھنوں میں نہ ڈال | شیح شیری
suna ke ranj-o-alam mujhko uljhanon mein na Dal

غزل

سنا کے رنج و الم مجھ کو الجھنوں میں نہ ڈال

شبیر نازش

;

سنا کے رنج و الم مجھ کو الجھنوں میں نہ ڈال
تھکن کا خوف مرے عزم کی رگوں میں نہ ڈال

میں اس جہان کو کچھ اور دینا چاہتا ہوں
تو کار وقت کے پر ہول چکروں میں نہ ڈال

ملول دیکھ کے تجھ کو میں رک نہ جاؤں کہیں
خدارا! ہجر کی شدت کو آنسوؤں میں نہ ڈال

تری بھلائی کی خاطر مجھے اتارا گیا
مجھے لپیٹ کے کپڑوں میں طاقچوں میں نہ ڈال

یہ ہجرتیں تو مقدر ہیں اور مشغلہ بھی
تو بے گھری کے حوالے سے وسوسوں میں نہ ڈال