سن کر کتنی آنکھیں نکلیں
اک پتھر میں سانسیں نکلیں
آنکھوں سے اک دریا نکلا
دریا سے کچھ لاشیں نکلیں
غم کے بھی کچھ پھول کھلے ہیں
زخموں سے بھی شاخیں نکلیں
آگے آگے ناخن آئے
پیچھے پیچھے بانہیں نکلیں
جس کو کھویا تھا آنکھوں نے
اس کو لینے یادیں نکلیں
کانٹوں نے کیوں جشن منایا
پھولوں سے کیوں آہیں نکلیں
ان گلیوں میں رہ کر دیکھا
دن سے روشن راتیں نکلیں
غزل
سن کر کتنی آنکھیں نکلیں
اسلم راشد