سلوک دیکھ لیا بے ہنر ہواؤں کا
ہر ایک شاخ ہے منظر اداس راہوں کا
وہ چاند بن کے مری رات پر اترتا ہے
تو کیسے یاد رکھوں رنگ پھر قباؤں کا
نہ کوئی نظم ہی لکھی نہ تجھ سے بات ہوئی
یہ پورا سال ہی ٹھہرا مجھے سزاؤں کا
طلب رہے تو مہکتے ہیں چاہتوں کے پھول
طلب مٹے تو صلہ کیسا پھر وفاؤں کا
نہیں یہ کوہ ندا سے ہے کچھ الگ بستی
جواب آتا نہیں لوٹ کر صداؤں کا

غزل
سلوک دیکھ لیا بے ہنر ہواؤں کا
مرغوب علی