سلگتی یاد سے خوں اٹ نہ جائے
دھوئیں سے دل کی کھائی پٹ نہ جائے
نئی فکروں سے بھیجا پھٹ نہ جائے
جو غم میرا ہے سب میں بٹ نہ جائے
سرابوں کو جلائے رکھ کہ جب تک
یہ چیخیں مارتی شب ہٹ نہ جائے
مسلسل بارش افتاد سہہ کر
سڑک پیمائشوں کی کٹ نہ جائے
بدن کا گھر ہے دیمک پھیلنے سے
یہ ڈر ہے دل کا روزن چٹ نہ جائے
صدائے رنگ چھو کر پانیوں کا
گھٹا تخلیقیت کی چھٹ نہ جائے
حنیفؔ آیا ہے تم سے چاند ملنے
درازی دیکھو شب کی گھٹ نہ جائے
غزل
سلگتی یاد سے خوں اٹ نہ جائے
حنیف ترین