سلگتی ریت پہ آنکھیں بھی زیر پا رکھنا
نہیں ہے سہل ہوا سے مقابلہ رکھنا
اسے یہ زعم کہ آغوش گل بھی اس کی ہے
جو چاہتا ہے پرندوں کو بے نوا رکھنا
سبک نہ ہو یہ نگہ داریٔ جنوں ہم سے
یہ دیکھنے کو اسے سامنے بٹھا رکھنا
بکھر نہ جانا جراحت نوازئی شب پر
مشام جاں کو ابھی خواب آشنا رکھنا
وہ فرصتیں کہ جنہیں آہٹوں کی خواہش ہو
انہیں جرس کی تمنا سے ماسوا رکھنا
تمام منظر جاں اس کی خواہشوں سے بنا
وہ خواب ہے تو اسے خواب میں سجا رکھنا
اداسیوں کو تو آنگن ہی چاہیئے خالی
چھتوں پہ چاندنی راتوں کا سلسلہ رکھنا
وہ جب بھی آیا بہت تیز بارشوں جیسا
وہ جس نے چاہا مجھے سرمئی گھٹا رکھنا
بس اک چراغ مسافت کا بوجھ سہہ لے گا
سخن کے بیچ طلب گارئ وفا رکھنا
غزل
سلگتی ریت پہ آنکھیں بھی زیر پا رکھنا
کشور ناہید

