سلگتی ریت میں اک چہرہ آب سا چمکا
اداس آنکھوں میں جینے کا حوصلہ چمکا
اندھیری رات میں یہ کس کا نقش پا چمکا
مسافروں کی نگاہوں میں راستہ چمکا
شب فراق میں کوئی ستارہ ٹوٹا تو
ہماری سوچ میں انجانا وسوسہ چمکا
فضا میں پھیل گئے کتنے یاد کے جگنو
دیار شوق میں جب کوئی رت جگا چمکا
اداسیوں کے اندھیرے ڈرا رہے تھے مجھے
کہ حافظے میں اچانک ترا کہا چمکا
بکھر رہی ہے خیالوں میں خواب کی خوشبو
وجود بن کے کہاں کوئی خوش ادا چمکا
چھپائے چھپ نہ سکا میں تو بھیڑ میں عنبرؔ
نہ جانے کیسے مجھی پر وہ دائرہ چمکا

غزل
سلگتی ریت میں اک چہرہ آب سا چمکا
برجیش عنبر