سلگ رہی ہے زمیں یا سپہر آنکھوں میں
دھواں دھواں سا ہے کیوں تیرا شہر آنکھوں میں
کھلے دریچے کے باہر ہے کون سا موسم
کہ آگ بھرنے لگی سرد لہر آنکھوں میں
کہاں ہے نیند کہ ہم خواب دیکھیں امرت کا
جو شام گزری ہے اس کا ہے زہر آنکھوں میں
خفا ہوئے بھی کسی سے تو کیا کیا ہم نے
بہت ہوا تو رہا دل کا قہر آنکھوں میں
کوئی اتارنے بیٹھے تو ہاتھ جل جائے
کھنچی ہے اب کے وہ تصویر دہر آنکھوں میں
وہی ہے پیاس کا منظر وہی لہو قیصرؔ
ہنوز پھرتی ہے کونے کی نہر آنکھوں میں
غزل
سلگ رہی ہے زمیں یا سپہر آنکھوں میں
قیصر شمیم