سکوت ٹوٹنے والا ہے حادثہ ہوگا
میں جانتا ہوں کہ پھر کوئی سانحہ ہوگا
میں اپنے آپ کو رک کر سمیٹ لوں اب بھی
کہ اس سے آگے بہت سخت مرحلہ ہوگا
ہر ایک منظر خوش رنگ بے پناہ سہی
مری نظر میں وہی عکس گم شدہ ہوگا
نشان پائے گا اپنا نہ اس سفر میں وہ
جہاں بھی جائے گا سنسان راستہ ہوگا
ہماری روح ہمارے بدن کو ترسے گی
ہمارے بیچ تو صدیوں کا فاصلہ ہوگا
نہ رو بہ رو کسی خواہش کی تشنگی ہوگی
نہ اس کے ہونٹوں کا شاداب ذائقہ ہوگا
ہمارا ذوق ہنر ہے صداقتوں کا امیں
ہمارے حق میں بھلا کیسے فیصلہ ہوگا
غزل
سکوت ٹوٹنے والا ہے حادثہ ہوگا
ناز قادری