سکوں پرور ہے جذباتی نہیں ہے
مرا ہمدم خرافاتی نہیں ہے
جو کرتا تھا چراغاں سب کے گھر میں
اسی کے گھر دیا باتی نہیں ہے
مرا محبوب ہے محبوب کامل
مرا محبوب جذباتی نہیں ہے
تعلق رکھ کے بھی ہے بے تعلق
سمجھ میں بات یہ آتی نہیں ہے
جسے راس آ گئی عزلت نشینی
طبیعت اس کی گھبراتی نہیں ہے
پشیمانی ہے وہ تیرے جنوں کی
مرے گھر آ کے جو جاتی نہیں ہے
اسی غم میں سدا رہتا ہوں ہمدم
ترا جذبہ عنایاتی نہیں ہے
مجھے عبرتؔ خوشی اس بات کی ہے
ترا مسلک روایاتی نہیں ہے

غزل
سکوں پرور ہے جذباتی نہیں ہے
عبرت بہرائچی