سکون دل میں وہ بن کے جب انتشار اترا تو میں نے دیکھا
نہ دیکھتا پر لہو میں وہ بار بار اترا تو میں نے دیکھا
نہ آنسوؤں ہی میں وہ چمک تھی نہ دل کی دھڑکن میں وہ کسک تھی
سحر کے ہوتے ہی نشۂ ہجر یار اترا تو میں نے دیکھا
اداس آنکھوں سے تک رہا تھا مجھے وہ چھوٹا ہوا کنارا
شکستہ کشتی سے جب میں دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
جو برف آنکھوں میں جم چکی تھی وہ دھیرے دھیرے پگھل رہی تھی
جب آئنے میں وہ میرا آینہ دار اترا تو میں نے دیکھا
تھے جتنے وہم و گمان وہ سب نئی حقیقت میں ڈھل چکے تھے
اک آدمی پر کلام پروردگار اترا تو میں نے دیکھا
نہ جانے کب سے سسک رہا تھا قریب آتے جھجک رہا تھا
مکاں کی دہلیز سے وہ جب اشک بار اترا تو میں نے دیکھا
خیال جاناں تری بدولت فرازؔ ہے کتنا خوبصورت
دماغ و دل سے حقیقتوں کا غبار اترا تو میں نے دیکھا
غزل
سکون دل میں وہ بن کے جب انتشار اترا تو میں نے دیکھا
طاہر فراز