سخن وری کا بہانہ بناتا رہتا ہوں
ترا فسانہ تجھی کو سناتا رہتا ہوں
میں اپنے آپ سے شرمندہ ہوں نہ دنیا سے
جو دل میں آتا ہے ہونٹوں پہ لاتا رہتا ہوں
پرانے گھر کی شکستہ چھتوں سے اکتا کر
نئے مکان کا نقشہ بناتا رہتا ہوں
مرے وجود میں آباد ہیں کئی جنگل
جہاں میں ہو کی صدائیں لگاتا رہتا ہوں
مرے خدا یہی مصروفیت بہت ہے مجھے
ترے چراغ جلاتا بجھاتا رہتا ہوں

غزل
سخن وری کا بہانہ بناتا رہتا ہوں
اسعد بدایونی