سخن ور ہوں سخن فہمی کی لذت بانٹ دیتا ہوں
میں اپنے شعر کو خوشبو کی صورت بانٹ دیتا ہوں
فقط اپنے لیے کچھ بھی کبھی رکھا نہیں میں نے
میں اوروں کے لیے اپنی ضرورت بانٹ دیتا ہوں
انہیں مجبور کر دیتی ہے خود سے پیار کرنے میں
میں لوگوں کے دلوں میں محبت بانٹ دیتا ہوں
فقط دو بول ہی چاہت کے دنیا کی ضرورت ہیں
میں لوگوں کے دلوں میں یہ مسرت بانٹ دیتا ہوں
بہت ممکن ہے یہ بھی ایک دن نازک بدن نکلے
میں پتھر کو بھی شیشے کی نزاکت بانٹ دیتا ہوں
محبت نام ہے دشمن کو بھی دل سے لگانے کا
میں اپنے پیار سے دنیا میں حیرت بانٹ دیتا ہوں
یہی عادت تو ہے سعدیؔ سکون قلب کا باعث
میں نفرت بھول جاتا ہوں محبت بانٹ دیتا ہوں

غزل
سخن ور ہوں سخن فہمی کی لذت بانٹ دیتا ہوں
سعید اقبال سعدی