سخن کو طول نہ دے اپنی احتیاج بتا
اٹھا نہ دل کی کوئی بات کل پہ آج بتا
کھڑا ہوں در پہ سراسیمگی کے عالم میں
وہ مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ کام کاج بتا
مفاہمت مری کوشش سپردگی ترا کام
تو اپنے شہر جنوں کا مجھے رواج بتا
خود اپنے ہاتھ سے اپنی اڑا چکا ہوں خاک
اب اور کیا ہو مکافات احتجاج بتا
کتاب دل کو میں ترتیب دے رہا ہوں پھر
ہوائے تازہ ہے کیسا ترا مزاج بتا
وہ گاہ شعلہ ہے صہباؔ تو گاہ شبنم ہے
کہیں پہ دیکھا ہے ایسا بھی امتزاج بتا

غزل
سخن کو طول نہ دے اپنی احتیاج بتا
صہبا وحید