سخن کی شب لہو ہوتی رہے گی
کسی سے گفتگو ہوتی رہے گی
وہ سورج ہے تو ہو نزدیک جاں بھی
یہ تابش چار سو ہوتی رہے گی
دریدہ دامنی ہے بے کلی سے
اسی سے یہ رفو ہوتی رہے گی
کوئی غنچہ سوار کہکشاں تھا
خبر یہ کو بہ کو ہوتی رہے گی
میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کب تک
زمیں بے آبرو ہوتی رہے گی
سمندر کے کنارے مل رہے ہیں
یہ دنیا آب جو ہوتی رہے گی
خزینے کائناتی کم نہ ہوں گے
نمود جستجو ہوتی رہے گی
نہال عشق افسردہ نہ ہوگا
تمنائے نمو ہوتی رہے گی
نہ وہ ہوگا نہ ہم لیکن یہ دنیا
حریص رنگ و بو ہوتی رہے گی

غزل
سخن کی شب لہو ہوتی رہے گی
سید امین اشرف