سکھانے بال ہی کوٹھے پہ آ گئے ہوتے
اسی بہانے ذرا منہ دکھا گئے ہوتے
تمہیں بھی وقت کی رفتار کا پتہ چلتا
نکل کے گھر سے گلی تک تو آ گئے ہوتے
گلا بھگو کے کہیں اور صدا لگا لیتا
ذرا فقیر کو پانی پلا گئے ہوتے
ارے یہ ٹھیک ہوا ہونٹ سی لیے ہم نے
وگرنہ لوگ تجھے کب کا پا گئے ہوتے
بھلا ہو چاند کا آتے ہی نور پہنچایا
ستارے ہوتے تو آنکھیں چرا گئے ہوتے
جوان جسموں کو ٹھنڈا نہ کر سکے لیکن
ہوا کے جھونکے دیا تو بجھا گئے ہوتے
غزل
سکھانے بال ہی کوٹھے پہ آ گئے ہوتے
محمد علوی